سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹوکیس سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان نے قاضی فائز عیسیٰ نے رائے سنا دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے اس معاملے پر متفق ہے، ہم ججز پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، سپریم کورٹ کی رائے متفقہ ہو گی، جب تک غلطیاں تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کر سکتے، ریفرنس میں 5 سوالات اٹھائے گئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو آئین کے مطابق فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کا کام انصاف کی فراہمی ہے، تاریخ میں ایسے متعدد مقدمات ہیں جن میں درست فیصلے نہیں ہوئے، ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے بغیر درست سمت میں نہیں جا سکتے، جس سوال پر معاونت نہیں ملی اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
عدالتی مختصر فیصلہ سنائے جانے کے وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
عدالتی رائے سن کر بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہو گئے۔
گزشتہ سماعت میں عدالتِ عظمیٰ نے تمام فریقین و معاونین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بھٹو کیس کی سماعت مکمل کر لی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس آصف علی زرداری نے بطور صدرِ پاکستان2011ء میں دائر کیا تھا۔
اسلام آباد (ارنا) پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی فوجی حکمرانی کے دور میں پھانسی کے 45 سال بعد، سپریم کورٹ نے بھٹو کے مقدمے کو انصاف اور اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پھانسی کو غیر منصفانہ قرار دے دیا۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو جنہیں 45 سال قبل جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دی گئی تھی، کے مقدمے کو آئین کے اصولوں کے منافی اور کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بھٹو کو عدالت میں اپنے دفاع کا مناسب موقع (فئیر ٹرائل) نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ تمام ججز نے اپنی متفقہ رائے کا اعلان کیا ہے اور ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ عدلیہ کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔
ذوالفقار علی بھٹو جنہیں قائدِ عوام کہا جاتا ہے، کو جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1975 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے معزول کیا اور پھر غداری کے مقدمے میں عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد ہیں جنہیں 2007 میں راولپنڈی شہر میں قتل کر دیا گیا تھا۔
بھٹو، پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے نانا اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے سسر ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیراعظم تھے۔
انہیں 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی، پاکستان میں 51 سال کی عمر میں پھانسی دی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی اور 13 سال کے وقفے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے اس کیس کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے آج اپنا فیصلہ سنا دیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا عدالتی فیصلہ ایک بے گناہ سیاسی رہنما کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی اپنی غلطیوں کا اعتراف ظاہر کرتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ایک امیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیلیفورنیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کے شعبے میں گریجویشن کیا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھٹو نے پاکستان میں وکالت کے پیشے کا انتخاب کیا اور سپریم کورٹ میں کام کیا۔
انہوں نے 8 ستمبر 1951 کو کراچی میں بیگم نصرت اصفہانی سے شادی کی۔ اس شادی کے نتیجے میں 4 بچے، بے نظیر، مرتضیٰ، صنم اور شاہنوازپیدا ہوئے۔
بھٹو کی سیاسی ذمہ داریوں میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی (1957)، محمد ایوب خان کی حکومت میں انرجی کے وزیر (1958)، اور 1960 میں بھارت کے ساتھ دریائے سندھ کے مذاکرات کے دوران ملک کے صدر کے مشیر رہے۔
پاکستان کے آنجہانی وزیر اعظم نے 1966 میں کشمیر پر بھارت کے ساتھ معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اگلے ہی سال انہوں نے حکومت کی مخالف جماعت پیپلز پارٹی بنائی جس نے 1970 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973 تک جمہوریہ پاکستان کے چوتھے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں لیکن اس سال جب ملک کا آئین تبدیل کیا گیا تو اصل طاقت وزیر اعظم کو سونپ دی گئی اور بھٹو نے یہ ذمہ داری بھی سنبھال لی۔
بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا انجام تلخ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 میں جنرل محمد ضیاءالحق کی فوجی بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کر دیا گیا اور آخر کار پیپلز پارٹی کے بانی کو قتل اور غداری کے الزام میں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔