سکھ رہنما کے قتل کے بعد سے کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی سطح پر کشیدگی تاحال برقرار ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے سکھ رہنما کے قتل کا الزام بھارت پر لگائے جانے کے بعد سے مختلف ممالک بھی بھارت پر تحقیقات کے حوالے سے زور دے رہے ہیں۔
اب اس حوالے سے بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کے ایک سابق اہلکار مائیکل روبن نے کہا ہے کہ اگر امریکا کو بھارت اور کینیڈا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو امریکا بھارت کا انتخاب کرے گا۔
مائیکل روبن نے بھارتی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اسٹریٹجک لحاظ سے کینیڈا سے کہیں زیادہ اہم ہے اور کینڈا کا بھارت کے ساتھ لڑائی لڑنا چیونٹی ہاتھی سے لڑنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے اس معاملے پر مزید کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے، انہوں نے ایسے الزامات لگائے ہیں جسے وہ واپس نہیں لے سکتے، ان کے پاس ان الزامات کی حمایت کرنے کے ثبوت نہیں ہیں۔
مائیکل روبن نے کہا کہ اگر ہمیں دو دوستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو ہم اس معاملے پر بھارت کا انتخاب کریں گے، صرف اس لیے کہ نجر ایک دہشت گرد تھا، بھارت کے ساتھ ہمارا رشتہ بہت اہم ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرے۔
انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت یہ یقینی بنائے کہ واقعہ میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر بھارت اور کینیڈا سے قریبی رابطے میں ہیں، یہ اہم ہے کہ تحقیقات مکمل ہوں اور ان کا نتیجہ نکلے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے ایجنٹ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین کے قتل میں ملوث ہیں۔
نیویارک میں میڈیا سے گفتگو میں جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ کا قتل ایک سنگین معاملہ ہے، سکھ رہنما کے قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ کینیڈا اور بھارت کے تعلقات حالیہ مہینوں میں تیزی سے کشیدہ ہوئے ہیں۔ دہلی کے لیے روانہ ہونے سے چند دن پہلے جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ان کا ملک بھارت سے تجارتی معاہدے پر جاری بات چیت کو روک رہا ہے۔ کینیڈا میں سکھوں کی طرف سے احتجاج بھی کشیدگی کی اہم وجہ ہے۔
یاد رہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں گوردوارے کے سامنے 18جون کو قتل کردیا گیا تھا۔
بھارت قتل تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرے، بلنکن
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرے۔
انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت یہ یقینی بنائے کہ واقعہ میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر بھارت اور کینیڈا سے قریبی رابطے میں ہیں، یہ اہم ہے کہ تحقیقات مکمل ہوں اور ان کا نتیجہ نکلے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا بین الاقوامی جبر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہے، یہ عالمی نظام کے لیے اہم ہے کہ اگر کوئی ملک بین الاقوامی جبر میں ملوث ہونا چاہتا ہو تو وہ ایسا نہ کرے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے زور دے کر کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کینیڈا کے تنازع پر واشنگٹن اور اوٹاوا کے درمیان کوئی “اختلاف” نہیں ہے۔
پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ میں اس خیال کو سختی سے مسترد کرتا ہوں کہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان کوئی اختلاف ہے ہمیں الزامات کے بارے میں گہری تشویش ہے اور ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے اور مجرموں کا محاسبہ کیا جائے۔
مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ اس تنازع کے بارے میں واشنگٹن اوٹاوا اور نئی دہلی کے ساتھ رابطے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جو وہ اس تحقیقات میں کر رہے ہیں اور ہم ہندوستانی حکومت کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ہمارے شہری کے قتل میں ملوث ہے چاہتے ہیں بھارت ہردیپ سنگھ کےقتل کی تحقیقات میں تعاون کرے۔
کینیڈین وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی ہماری ریاست کی بنیاد ہے ہم ہردیپ سنگھ کے قاتلوں تک پہنچنا چاہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہےایک ملک کے شہری کو دوسرا ملک قتل کر دے۔
دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی نگرانی کرنے والے امریکی وزارت خارجہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی پر قدغن ہے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سفیر برائے بین االاقوامی مذہبی آزادی رشاد حسین نے گزشتہ برس کی رپورٹ جاری کردی جس میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں پر حملے، ان کا قتل عام، عبادت گاہوں پر قبضے، دھمکیاں اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسے جرائم کو مودی حکومت کے چند افراد یا تو نظر انداز کر رہے ہیں یا پشت پناہی کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارت میں گزشتہ برس کے دوران گائے ماتا کی حفاظت کے نام پر گوشت کی تجارت کرنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس کے علاوہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مندر تعمیر کرنے کی مہم بھی زور و شور سے جاری ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے محکمے کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو دنیا بھر میں خطرات کا سامنا ہے بالخصوص بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور بہت سارے عقائد کا گھر ہے، وہاں ہم نے اقلیتوں اور عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملے دیکھے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر مودی جب سے برسراقتدار میں آئے ہیں ملک میں گائے ماتا کے حفاظت کے نام پر کئی ریاستوں میں گائے کے ذبح اور گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔